Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
جو کام ترے ہونٹوں کی پھلواری کرے ہے
ایسی نہ کوٸی حور بھی گل کاری کرے ہے
ہو جاٸیں تہہ و بالا زمیں اور فلک بھی
قربان ترے، تو جو اداکاری کرے ہے
ہے تیرے سوا کون فریبوں میں ہنرمند
اور میرے سوا کون وفاداری کرے ہے
سمجھا نہ سمجھدار کوٸی تیری سمجھ کو
ناداں ہے مگر خوب یہ ہشیاری کرے ہے
سیکھا ہے سبق تُو نے بھی شیطان سے شاید
ہر بار رہِ عشق میں عیّاری کرے ہے
بے سوچے اتر جاتا ہے میدانِ جنوں میں
دیوانہ کہاں عشق میں تیّاری کرے ہے
کچھ اور نہیں آتا اُسے کارِ جہاں میں
دلداری جو کرتا ہے وہ دلداری کرے ہے
دنیا سے کوٸی رشتہ نہ امید رکھے وہ
محبوب سے اپنے جو کوٸی یاری کرے ہے
منزل کے لٸے گھر سے نکلتا ہے کوٸی جب
آسان سی ہر بات بھی دشواری کرے ہے
اٸے اشک میں ڈوبا ہوں عبادت میں سخن کی
دنیا یہ سمجھتی ہے گنہگاری کرے ہے