Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
آتشِ عشق تو مدت سے مری جان میں ہے
ہر طرف کوٸی چراغاں دلِ ویران میں ہے
آ گیا جب وہ تصور میں تو محسوس ہوا
جیسے خوشبو کوٸی بکھری ہوٸی دالان میں ہے
تیرے ہونٹوں کے تبسّم کی مگر بات کہاں
کتنے پھولوں کا تبسّم مرے گلدان میں ہے
عقل والوں کو بھی حیران کٸے جاتی ہے
وہ جو داناٸی ترے اک دلِ نادان میں ہے
پتلیاں آنکھ کی رقصاں ہیں لہو میں اپنے
اُس کے آنے کی خبر جب سے شبستان میں ہے
ایک قطرہ ہے لبِ یار کا یہ آبِ حیات
عکسِ محبوب ہی روشن مہِ تابان میں ہے
ہے نصیبوں کا عجب کھیل تری دنیا میں
کوٸی گلشن میں کوٸی دشت و بیابان میں ہے
میری ہر سانس عبادت میں گزر جاتی ہے
کیا بتاٶں میں تمہیں کیا مرے پیمان میں ہے
جس کا جی چاہے وہ راہوں کو منور کر لے
روشنی سارے جہاں کے لٸے قرآن میں ہے
جس کا اعجازِ سخن ہے کٸی نسلوں کے لٸے
اشک دیوان ترا ایسے ہی دیوان میں ہے