Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
کوٸی خواب میری نظر میں نہیں تھا
میں چلتا رہا پر سفر میں نہیں تھا
ہمیں اپنی پہچان ہوتی تو کیسے
کوٸی آٸنہ اپنے گھر میں نہیں تھا
اسی کا ہے ڈر آج تک اپنے دل میں
جو اک حادثہ رہگزر میں نہیں تھا
سبھی گھر کے افراد بیٹھے تھے گھر میں
مگر کوٸی بھی جیسے گھر میں نہیں تھا
یہی سوچ کر سر جھکایا نہ میں نے
خدا تو مرا سنگِ در میں نہیں تھا
ہر اک شاخ شرمندہ ہو کر ملی ہے
مرا پھل کسی بھی شجر میں نہیں تھا
وہ طوفان چھوٹے سے دل میں رہا ہے
جو طوفاں کسی بحر و بر میں نہیں تھا
محبت تو سب ہی سے ہوتی رہی ہے
طلب کر سکیں یہ جگر میں نہیں تھا
جو شعلہ دبا ہے مرے دردِ دل میں
کسی اور برق و شرر میں نہیں تھا
ہنر جو بھی آیا ہے اپنی غزل میں
یہ پہلے غزل کے ہنر میں نہیں تھا
میں بکھرا ہوا تھا نہ جانے کہاں تک
وجود اپنا بس بام و در میں نہیں تھا