Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
ادھر سے چلنے والے کو اُدھر جانا ہی پڑتا ہے
ملے جو آشنا کوٸی ٹھہر جانا ہی پڑتا ہے
مسافر کب تلک بھٹکے گا آخر دشت و صحرا میں
پلٹ کر اُس کو اک دن اپنے گھر جانا ہی پڑتا ہے
جسے ہو آرزو اک گوہرِ نایاب کی اُس کو
کسی گہرے سمندر میں اتر جانا ہی پڑتا ہے
محبت کی کشش بھی خوب یہ سب سے نرالی ہے
جدھر جانا نہیں ہوتا اُدھر جانا ہی پڑتا ہے
نکل جاتا ہے سارا بانکپن بس ایک لمحے میں
دھڑک جاٸے ذرا سا دل تو ڈر جانا ہی پڑتا ہے
اگر وہ آٸنہ بن کر ہمارے سامنے آٸے
تو اُس کو دیکھ کر ہم کو سنور جانا ہی پڑتا ہے
کوٸی جب آ کے پوچھے”عشق کیا کرتے ہو تم مجھ سے“
تو پھر اقرار کرنے سے مکر جانا ہی پڑتا ہے
عجب دستور ہے شہرِ وفا میں دلنوازی کا
کہ جینے کے لٸے سو بار مر جانا ہی پڑتا ہے
نہیں رکتا ہے کوٸی دیر تک بس ایک منزل پر
طلب میں ہر مسافر کو گزر جانا ہی پڑتا ہے
نہیں آسان ہے شعر و سخن میں زندگی کرنا
برنگِ بوٸے گل خود کو بکھر جانا ہی پڑتا ہے