Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
جو منزلوں کا کوٸی بھی پتہ نہیں رکھتا
سفر میں اپنے نیا راستہ نہیں رکھتا
بتاٶں کیا میں زمانے کو حالِ دل اپنا
سواٸے عشق کوٸی مدعا نہیں رکھتا
دھڑک رہا ہے خدا جانے کب سے وہ دل میں
کہ ایک پل بھی اُسے میں جدا نہیں رکھتا
کسی سے شہر میں پہچان ہی نہیں میری
ترے سوا میں کوٸی آشنا نہیں رکھتا
میں گھر سے اپنے اکیلا سفر پہ نکلا ہوں
کہ اس سفر میں کوٸی ہم نوا نہیں رکھتا
کسی حکیم کی حکمت نہ راس آٸی مجھے
مرے مرض کی کوٸی بھی دوا نہیں رکھتا
یہی چلن ہے جہاں میں ہر اک قلندر کا
فقیر لب پہ کوٸی بددعا نہیں رکھتا
بس ایک ذات کا عاشق ہوں جو خدا کی ہے
علاوہ اس کے کوٸی دیوتا نہیں رکھتا
یہی سبب مری بخشش کا بننے والا ہے
خیال دل میں کوٸی بھی برا نہیں رکھتا
ہزاروں خوبیاں رکھتا ہے اشک وہ لیکن
کسی کے واسطے دل میں وفا نہیں رکھتا