Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
شرابِ عشق سے لبریز جو پیالہ ہے
مرے لٸے تو یہی نور کا حوالہ ہے
میں خوش نصیب ہوں سب سے کہ میرے حصّے میں
کتابِ حسنِ غزل اور مٸے دو سالہ ہے
جسے تم اشک سمجھتے ہو غور سے دیکھو
لہو سے اپنے کوٸی تر بتر نوالہ ہے
نہیں ہے درد کے اظہار کا سلیقہ بھی
بلند آہ کوٸی ہے نہ کوٸی نالہ ہے
کھلا ہوا ہے چمن زار میرے سینے میں
ہر ایک زخمِ جگر جیسے کوٸی لالہ ہے
عجیب تشنہ لبی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے
وہ ہے سراب، مرا عشق بھی غزالہ ہے
وہ آ کے جذب ہوا جب سے میری آنکھوں میں
جدھر بھی دیکھ رہا ہوں اُدھر اجالا ہے
لگی ہے آگ جو مرغانِ باغ کے دل میں
سنا ہے اس کا سبب حسنِ داغِ لالہ ہے
بڑھا رہے ہیں مری مشکلیں جو راہوں میں
ہر ایک پیچ تری زلف کا حوالہ ہے
نزول جس کا ہوا ہے خدا کی جانب سے
وہ اشک شعر مرا جیسے صد رسالہ ہے