Ghazals

غزل ۔۔۔۔۔ ابراہیم اشک
اُن کا خیال جب بھی عبادت میں آ گیا
ایسا لگا کہ نور زیارت میں آ گیا
روشن وہ کر گیا مری لوحِ حیات کو
جو لفظ میرے دل کی صداقت میں آ گیا
آنکھوں میں اُس کی ڈوب کے ایسا لگا مجھے
پانی کی جیسے کوٸی عمارت میں آ گیا
میں نے قلم اٹھا کے جو لکھنا شروع کیا
وہ لفظ لفظ بن کے عبارت میں آ گیا
بِکنے لگے ہیں آج کٸی شاعر و ادیب
اب تو ادب بھی جیسے تجارت میں آ گیا
اک بے وفا کو دیر سے موقع کی تھی تلاش
انگلی کٹا کے بزمِ شہادت میں آ گیا
سارا شعور اڑ گیا کافور کی طرح
سارا غرور میری حماقت میں آ گیا
تیری گلی میں آیا تو ایسا لگا مجھے
جیسے بھٹک کے میں کسی جنّت میں آ گیا
اک بار اُس نے دل پہ مرے ہاتھ کیا رکھا
شعلہ سا عمر بھر کی حرارت میں آ گیا
یاروں نے اشک دور بساٸی ہیں بستیاں
میں پھر بھی دوڑتا ہوا چاہت میں آ گیا