Ghazals

غزل ۔۔۔۔۔ ابراہیم اشک
کم برق و آفتاب سے جس کی طلب نہیں
دل کا نگر جلے تو تماشا عجب نہیں
جس کو غمِ زمانہ محبوب ہو گیا ہے
حاصل اُسے جہاں میں جشنِ طرب نہیں
ہے کفر بھی ضروری ایماں کی مجلسوں میں
جو بے ادب نہ ہو تو عرضِ ادب نہیں
ہم عاشقوں کو چاہے جس نام سے پکارو
اپنا کوٸی تخلص کوٸی لقب نہیں
وہ تو ہزار جلوے اپنے دکھا رہا ہے
دیدار کر سکیں ہم اتنا ادب نہیں
ہر لمحہ کوٸی معنی دے کر گزر گیا ہے
مقصد ہے زندگی کا یہ بے سبب نہیں
راہیں غلط نہیں تھیں ہم ہی تھے بے خودی میں
بے ڈھب تھی چال اپنی چلنے کا ڈھب نہیں
ہر آٸنے میں کوٸی صورت چھپی ہوٸی ہے
اس راز کو سمجھتے دنیا میں سب نہیں
اپنی ہی ناتوانی گزری ہے بار مجھ پر
میری مخالفت میں یہ روز و شب نہیں
اپنی خوشی کی خاطر تخلیق ہے غزل کی
اٸے اشک اور کوٸی شرطِ ادب نہیں