Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
مثالِ آبِ رواں بے کنار ہوتے رہے
کہ ہم تو عالمِ امکاں سے پار ہوتے رہے
سفر میں کوچہءِ جاناں سے تھا گزر اپنا
برنگِ موجِ صبا بے قرار ہوتے رہے
ترے فریب سے واقف ہیں پھر بھی جانے کیوں
تری نگاہ کے ہر دم شکار ہوتے رہے
غبار بن کے اڑے اور فلک کو چوم لیا
بلند یُوں بھی ترے خاکسار ہوتے رہے
شہادتوں کے علَم تھے ہمارے حصے میں
کہ اپنے ملک پہ ہر دم نثار ہوتے رہے
رکے تو سارا ہی عالم سمیٹ کر بیٹھے
چلے تو جیسے ہوا پر سوار ہوتے رہے
تمام دشتِ جنوں میں ہیں نقشِ پا اپنے
جدھر سے گزرے اُدھر یادگار ہوتے رہے
کہ پتھروں میں بھی اپنے ہنر کا ہے چرچا
جو بت تراش دٸے شاہکار ہوتے رہے
ضمیر بیچنے والوں کی تھی یہی عادت
ہر اک مقام پہ وہ اشتہار ہوتے رہے
خلوصِ دل سے ہمیں ٹوٹنا بکھرنا تھا
کہ حادثے تو یہاں بے شمار ہوتے رہے
غزل کے شعر میں رکھّی ہیں عظمتیں ہم نے
ادب میں اشک بہت باوقار ہوتے رہے