Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک

بہت خلوص دکھایا تو وہ ذلیل ہوئے
جو لوگ کوئے بتاں میں گئے قتیل ہوئے
یہ حال دیکھا گیا عشق کے دوانوں کا
کہ بزم یار میں ہر وقت بے دلیل ہوئے
تمام عمر مسافر بنے رہے ہم تو
نہ اپنے خواب سجانے میں خود کفیل ہوئے
ہمارے دیدہ و دل کی عجب کہانی ہے
کبھی لہو کے سمندر، کبھی یہ جھیل ہوئے
کسی کے ہجر میں جینے کا یہ کرشمہ ہے
اداس رات میں ہم درد کی فصیل ہوئے
ہر اک قدم پہ کسی کربلا سے گزرے ہیں
کئی تھے آبِ رواں پھر بھی بے سبیل ہوئے
تمام درد لکھے تھے ہماری قسمت میں
کرشمہ یہ ہے کہ ہم پھر بھی سنگ میل ہوئے
نگاہِ ظلمتِ صیّاد ان پہ ہوتی ہے
چمن میں نغمہ سرا مرغ جو اصیل ہوئے
ہم اس طرح سے عدالت میں رہ گئے تنہا
ہمارے ساتھ نہ منصف،نہ یہ وکیل ہوئے