Ghazals

غزل ۔۔۔ ابراہیم اشک
وہ جو ہاتھوں میں جام رکھتا ہے
حکمرانی تمام رکھتا ہے
جس کو کہتے ہیں لوگ آبِ حیات
تیرے رندوں کا جام رکھتا ہے
جو کہیں بھی نظر نہیں آتا
میرا ساقی نظام رکھتا ہے
تیرے عاشق کا ہے یہی انداز
کام سے اپنے کام رکھتا ہے
ہر ملاقات میں کشش کے لٸے
وہ اسے ناتمام رکھتا ہے
کم نہ ہوتے کبھی ستم اُس کے
سلسلہ یہ مدام رکھتا ہے
زلف و رخسار دیکھ لیں اُس کے
کیا حسیں صبح و شام رکھتا ہے
عقل پر اُس کی کچھ ترس کھاٶ
وہ جو مٸے کو حرام رکھتا ہے
عشق سے چھوٹنا نہیں آساں
عمربھر یہ غلام رکھتا ہے
پوری کرتا کہاں ہے وہ امیّد
آرزو ناتمام رکھتا ہے
اشک آساں نہیں ہے راہِ وفا
ہر قدم پر وہ دام رکھتا ہے