Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
ہر اک قدم پہ چلنے لگی بادِ نَو بہار
میں نے کِیا جو عزمِ جہانگیری اختیار
ہر گوشہءِ جہاں میں برسنے لگا ہے نور
نکلا فلک سے جب کوٸی خورشیدِ کامگار
چھلکا جو میری آنکھ سے آنسو بنامِ عشق
دیکھا کہ اس پہ لاکھوں ستارے ہوٸے نثار
دیدارِ حسنِ یار سے فرصت نہیں ملی
چاہت میں تیری بھول گیا سارے روزگار
سرمایہءِ حیات ہیں اپنے لٸے وہی
دوچار لمحے ہم نے گزارے جو یادگار
آ جاٸیں وہ تو لطف کی ہو جاٸے انتہا
موسم ہے خوش گوار فضا بھی ہے سازگار
اس راہِ پر خطر میں ذرا سوچ کر چلو
دل کے سفر میں حادثے ہوتے ہیں بے شمار
جن کو غمِ حیات نے برباد کر دیا
وہ لوگ اپنے جسم بنا لیتے ہیں مزار
وہ تشنہ لب جو پھرتے ہیں دشت و سراب میں
اُن کی خلا میں گونجتی رہتی ہے اک پکار
ہے نغمہءِ وفا مرے دل کے سرود پر
ڈوبا ہوا ہے درد میں جس کا ہر ایک تار
مرنے کے باوجود بھی آنکھیں کھلی رہیں
اک بے وفا کا اشک کیا ایسے انتظار