Ghazals

غزل ۔۔۔۔۔ ابراہیم اشک
خوشبوٸے خاک صبا کوچہءِ دلدار سے لا
تحفہءِ زخمِ جگر کوٸی درِ یار سے لا
مدتّیں ہو گٸیں دیکھی نہیں اپنی صورت
کوٸی آٸینہ مرے واسطے بازار سے لا
شخصیت بنتی نہیں کوٸی ہوس کاروں کی
بے نیازی کی ادا اپنے ہی کردار سے لا
داستاں عشق کی بکھری ہے خلاٶں میں کہیں
نامہءِ عشق مرا عالمِ اسرار سے لا
جانتے ہیں وہی سب نامہءِ اعمال مرا
میری باتوں کی شہادت درودیوار سے لا
چھیڑ میں کرتا رہوں اور ستاٶں تجھ کو
لطف تو بھی تو کوٸی عشق میں انکار سے لا
گھر میں زاہد کے تو ایمان کی دولت نہ ملی
مانگ کر جنسِ گراں اب یہ گنہگار سے لا
دل کے موتی نہیں ملتے ہیں کہیں محلوں میں
یہ خزانے کسی اجڑے ہوٸے فنکار سے لا
تُو کہاں ڈھونڈتا پھرتا ہے اٸے نادان اُسے
نعرہءِ امن مرے دین کی تلوار سے لا
اشک گمراہ فضاٶں میں ہنر ہے گمنام
کوٸی تبدیلی نٸی عظمتِ افکار سے لا