Ghazals

غزل …. ابراہیم اشک
اس طرح عشق میں ہر ردِ عمل دیتے ہیں
زخم کھلتے ہیں تو ہم تازہ غزل دیتے ہیں
عشق میں باندھ کے رکھّا نہیں جاتا خود کو
ہم تو زنجیر ہر اک توڑ کے چل دیتے ہیں
کیا سمجھتے ہو بھلا عشق کے دیوانوں کو
موج میں آئیں تو دنیا کو بدل دیتے ہیں
بادشاہوں کی محبت کا الگ ہے انداز
اپنے محبوب کو وہ تاج محل دیتے ہیں
جب بھی آتی ہے کوئی یاد غمِ جاناں میں
زخمِ دل میرے محبت کے کنول دیتے ہیں
روز ہم مانگتے ہیں لطفِ شبِ وصل مگر
روز کہہ دیتے ہیں وہ آپ کو کل دیتے ہیں
دونوں عالم ہی الجھ جاتے ہیں پیچ و خم میں
جب وہ زلفوں کو بڑے ناز سے بل دیتے ہیں
جس کو دیکھیں وہ پریشان ہے اس دنیا میں
کون کہتا ہے کہ ہم زیست کا حل دیتے ہیں؟
وہ جو بنتے ہیں مددگار جہاں میں اپنے
اشک وہ لوگ ہی ہر بار خلل دیتے ہیں