Ghazals

غزل…. ابراہیم اشک
دل سے دل کے جڑے تار تو عشق مزہ دے جاتا ہے
عظمت والا ملے پیار تو عشق مزہ دے جاتا ہے
تم کیا جانو زخمِ وفا کو ہم جانیں ہیں دیوانے
جب بھی کھایا کوئی وار تو عشق مزہ دے جاتا ہے
اپنی دھن میں چلنے والے ہم کیا جانیں منزل کو
راہ ملے جب بھی دشوار تو عشق مزہ دے جاتا ہے
تنہائی میں جینے والے ایک تاریخ بناتے ہیں
روٹھ گیا ہو جب دلدار تو عشق مزہ دے جاتا ہے
چلتے چلتے دشتِ وفا کی انجانی سی راہوں میں
مل جائے جب کوئی یار تو عشق مزہ دے جاتا ہے
جوش میں جب طوفان آئے اور بھنور میں کشتی ہو
ہاتھ سے چھوٹے جب پتوار تو عشق مزہ دے جاتا ہے
ہم نے مانا قدم قدم پر دھوکے ہیں یارانے میں
پھر بھی چاہت میں اک بار تو عشق مزہ دے جاتا ہے
سب سے مشکل کام ہے جاناں! دل سے ہاں کہہ دینے میں
کرتے ہو جب تم انکار تو عشق مزہ دے جاتا ہے
اشک ادب میں بنتے بنتے بات کوئی بن جاتی ہے
دل کہہ لے جب بھی اشعار تو عشق مزہ دے جاتا ہے