Ghazals

غزل…. ابراہیم اشک
کوچہءِ یار میں جانے کی تمنّا کر لے
اک نیا جشن منانے کی تمنّا کر لے
عشق حیوان کو انسان بنا دیتا ہے
عشق میں دل کو لُٹانے کی تمنّا کر لے
روٹھ جا خود سے کبھی ہجر کے موسم کی طرح
آور پھر خود کو منانے کی تمنّا کر لے
اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو مٹا دے اک بار
یوں بھی تقدیر بنانے کی تمنّا کر لے
یار جس طرح بناتا ہے بہانے تجھ سے
تُو بھی کچھ اس سے بہانے کی تمنّا کر لے
یہ جو کچھ لوگ تجھے زخم دیا کرتے ہیں
تُو انہیں پھول بنانے کی تمنّا کر لے
وہ جو کچھ خواب ادھورے سے بکھر جاتے ہیں
شاعری اُن سے بنانے کی تمنّا کر لے
اپنے عیبوں کو بدستور پرکھنے کے لئے
گھر میں اک آئینہ خانے کی تمنّا کر لے
کائناتِ دلِ ویراں سے صدا آتی ہے
اشک آ مجھ کو سجانے کی تمنّا کر لے