Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
بلند و پست کی ہر وقت زد میں رہتا ہے
مرا وجود کہاں اپنے قد میں رہتا ہے
تمام عالمِ ہستی ہے قبر گاہ کوٸی
ہر ایک شخص جہاں اک لحد میں رہتا ہے
اُسی میں الجھا ہوا ہے یہ زاہدِ کم عقل
گناہ گار کہاں نیک و بد میں رہتا ہے
سراپا ایک جہنّم بنا ہوا ہے وہ
جو دوستوں کی خوشی سے حسد میں رہتا ہے
وہ بے نیاز زمانے سے ہو نہیں سکتا
ہر ایک لمحہ جو ہوش و خرد میں رہتا ہے
یہ برکتیں ہیں کہ ہر روز بڑھتی جاتی ہیں
خدا کا فضل ہماری رسد میں رہتا ہے
نہیں پکارا کسی کو بھی آج تک میں نے
کہ عزم اپنا ہمیشہ مدد میں رہتا ہے
مچل گیا تو مجھے بزمِ کاٸنات ہے کم
جنونِ عشق کہاں اپنی حد میں رہتا ہے
اسی کے معنی و مفہوم جاوداں ہیں اشک
جو لفظ میری غزل کی سند میں رہتا ہے