Ghazals

غزل ۔۔۔۔۔ ابراہیم اشک
کوٸی سکوں ہے اور نہ کوٸی ہلچل ہے
دل کے اندر باہر کوٸی جنگل ہے
آج بہت ہم روٸے ہیں تنہاٸی میں
کاٸینات کے ہر گوشے میں جل تھل ہے
اس بستی میں کس سے دل کی بات کریں
یہاں نہ کوٸی اپنے جیسا پاگل ہے
لپٹ رہی ہے جسم و جاں سے مست ہوا
دور کہیں لہرایا اُس کا آنچل ہے
ساری زمیں اپنے حصّے کی ہے پیاسی
آسمان پر اڑتا رہتا بادل ہے
ہم نے جس کو شب کا اندھیرا سمجھا تھا
وہ اُس کی آنکھوں کا گہرا کاجل ہے
جانے کتنی صدیاں جس میں ڈوب گٸیں
وہ تو تیرے انتظار کا اک پل ہے
اپنے لہو سے اپنی پیاس بجھا لی ہے
دشتِ وفا میں یہی ہماری چھاگل ہے
سب کچھ ورنہ یہاں ادھورا تھا پہلے
میرے وجود سے دنیا ہوٸی مکمل ہے
اپنی نظر کے پھولوں سے سہلا دینا
مری غزل کا جسم بہت ہی گھایل ہے