Ghazals

غزل ۔۔۔۔ ابراہیم اشک
لذتِ دردِ جگر ہو تو غزل ہوتی ہے
دشت و صحرا کا سفر ہو تو غزل ہوتی ہے
فن کی تخلیق بڑی چیز ہے یارانِ سخن
عظمتِ فکر و ہنر ہو تو غزل ہوتی ہے
جن پہ لکھّیں وہی اوراق چمکنے لگ جاٸیں
رونقِ شمس و قمر ہو تو غزل ہوتی ہے
فکر عاشق کی، زباں حسن کی، انداز نیا
دل کو چھونے کا اثر ہو تو غزل ہوتی ہے
جوہرِ عالمِ ہستی ہو صداٸے دل میں
حرفِ اندازِ دگر ہو تو غزل ہوتی ہے
بے خودی میں نہ رہے شام و سحر کا مطلب
اس طرح شام و سحر ہو تو غزل ہوتی ہے
صرف چلنے سے کوٸی بات نہیں بنتی ہے
منزلِ عشق جو سر ہو تو غزل ہوتی ہے
اپنے پرکھوں سے عقیدت ہے ہمیں بھی لیکن
بام پر اپنا ہنر ہو تو غزل ہوتی ہے
موج در موج محبت کا سمندر ہو کوٸی
لفظ مانندِ گہر ہو تو غزل ہوتی ہے
ہوش میں اشک نہیں ہوتا ہے الہام کبھی
ہم کو اپنی نہ خبر ہو تو غزل ہوتی ہے