Ghazals

غزل ۔۔۔۔۔ ابراہیم اشک
ستم کے ہاتھ میں تلوار کا زمانہ ہے
یہی تو جرأتِ اظہار کا زمانہ ہے
کھڑے ہیں چپ در و دیوار بے وفاٶں کے
ہماری تلخیءِ گفتار کا زمانہ ہے
کٸی ہجوم ہیں شہروں میں بکنے والوں کے
عجیب گرمیءِ بازار کا زمانہ ہے
میں اپنے وقت سے آگے نکل گیا کب کا
یہ میرے بعد کی رفتار کا زمانہ ہے
عبادتوں میں جو سود و زیاں کی ہے تاریخ
تو سب سے اچھّا گنہگار کا زمانہ ہے
یہ کاٸنات تھی ڈوبی ہوٸی مرے اندر
وہ میرے عشق کے پندار کا زمانہ ہے
صداٸیں آنے لگیں دل کی بے قراری سے
قفس میں صبح کے آثار کا زمانہ ہے
ہجومِ یاس ہے ، غم ہے، تڑپ ہے، بے چینی
تمام عمر یہ فنکار کا زمانہ ہے
وہ وقت جب کہ خدا سے میں بات کرتا ہوں
تری تلاش ، ترے پیار کا زمانہ ہے